اقرأ باسم ربك الذي خلق

عقيقہ اور قربانى كے ليے ايك ہى جانور ذبح كرنا


en     ro -
كيا ايك ہى جانور عقيقہ اور قربانى كى نيت سے ذبح كرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ

اگر عقيقہ اور قربانى جمع ہو جائيں، اور انسان عيد الاضحى كے دن ايام تشريق ميں اپنے بيٹے كا عقيقہ كرنا چاہے تو كيا قربانى عقيقہ كے ليے بھى كفائت كر جائيگى ؟

اس ميں علماء كرام كے دو قول پائے جاتے ہيں

پہلا قول

قربانى عقيقہ سے كفائت نہيں كرتى، مالكيہ اور شافعيہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد سے ايك روايت ہے.

ان كى دليل يہ ہے كہ: يہ دونوں ـ يعنى قربانى اور عقيقہ ـ عليحدہ عليحدہ لذاتہ مقصود ہيں، اس ليے ايك دوسرى سے كفائت نہيں كريگى، اور اس ليے بھى كہ ہر ايك كا اپنا عليحدہ سبب ہے چنانچہ ايك دوسرے كے قائم مقام نہيں بن سكتى، جس طرح كہ حج تمتع كى قربانى اور فديہ كا جانور ہے

الھيتمى رحمہ اللہ كہتے ہيں

اصحاب كى كلام كا ظاہر يہ ہے كہ اگر كوئى ايك بكرا ذبح كرتے وقت قربانى اور عقيقہ كى نيت كرے تو ان ميں سے ايك بھى حاصل نہيں ہوگا، اور يہ ظاہر ہے؛ كيونكہ ہر ايك سنت مقصودہ ہے . انتہى

ديكھيں: تحفۃ المحتاج شرح المنھاج : 9 / 371

اور خطاب رحمہ اللہ كا قول ہے

اگر اس نے قربانى كا جانور قربانى اور عقيقہ دونوں كے ذبح كيا، يا اسے وليمہ ميں پكا كر كھلا ديا تو الذخيرہ ميں كہا گيا ہے: صاحب القبس كہتے ہيں: ہمارے شيخ ابو بكر الفھرى كا كہنا ہے: جب اس نے قربانى كا جانور قربانى اور عقيقہ دونوں كے ليے ذبح كيا تو يہ كفائت نہيں كريگا، اور اگر اسے وليمہ ميں پكا كر كھلا دے تو كفائت كر جائيگا، كيونكہ پہلے دونوں ميں تو خون بہانا مقصود ہے، اور ايك جانور كا دو مقصد كے ليے خون بہانا كفائت نہيں كريگا، اور وليمہ كا مقصد كھانا كھلانا ہے، اور يہ خون بہانے كے منافى نہيں، تو اس ليے اسے جمع كرنا ممكن ہے . انتہى

ديكھيں: مواھب الجليل : 3 / 259 

دوسرا قول

قربانى عقيقہ سے بھى كفائت كر جائيگى، يہ امام احمد سے ايك روايت اور احنفا كا مسلك ہے، اور حسن بصرى اور محمد بن سيرين اور قتادہ رحمہ اللہ كا بھى يہى قول ہے

اس قول كے قائلين كى دليل يہ ہے كہ: ان دونوں كا مقصد جانور ذبح كر كے اللہ كا قرب حاصل كرنا ہے، تو ايك دوسرے ميں داخل ہو گيا، جس طرح مسجد ميں داخل ہو كر فرضى نماز ادا كرنے والے كے ليے تحيۃ المسجد فرضى نماز ميں داخل ہو جاتى ہے

ابن ابى شيبہ رحمہ اللہ نے " المصنف " ميں حسن رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ: جب وہ بچے كى جانب سے قربانى كريں تو يہ اس كے عقيقہ كے ليے كافى ہو جائيگى

ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبۃ : 5 / 534

اور ھشام اور ابن سيرين رحمہما اللہ كہتے ہيں: اس كى جانب سے قربانى كرنا اس كے عقيقہ كے ليے كفائت كر جائيگى

اور قتادہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس سے كفائت نہيں كريگى، بلكہ اس كا عقيقہ كيا جائيگا

اور البھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اور اگر عقيقہ اور قربانى كا وقت اكٹھا ہو گيا، وہ اس طرح كہ عيد الاضحى يا قربانى كے ايام بچہ كى پيدائش كے ساتويں روز كے موافق ہوں تو عقيقہ كرنا قربانى سے كفائت كر جائيگا، يا پھر اس نے قربانى كى تو دوسرے سے كفائت كر جائيگى، جس طرح كہ اگر عيد اور جمعہ اكٹھا ہو جائے تو دونوں كے ليے وہ ايك ہى غسل كرے تو كفائت كر جائيگا، اور اسى طرح حج تمتع يا حج قران كرنے والے كا يوم نحر كے دن واجب ہدى اور قربانى سے كفائت كر جائيگى " انتہى.

ديكھيں: شرح منتھى الارادات : 1 / 617

اور كشاف القناع " ميں بھوتى رحمہ اللہ كہتے ہيں

اور اگر عقيقہ اور قربانى جمع ہو جائے اور آدمى دونوں كى نيت سے ذبح كرے يعنى عقيقہ اور قربانى كى نيت سے دو دونوں سے بالنص كفائت كر جائيگى، يعنى امام احمد نے يہى بيان كيا ہے . انتہى.

ديكھيں: كشاف القناع : 3 / 30

اور شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كرتے ہوئے كہا ہے

اگر قربانى اور عقيقہ دونوں جمع ہو جائيں تو اپنى جانب سے قربانى كا عزم ركھنے والے گھر والے كى جانب سے ايك ہى كفائت كر جائيگى، تو وہ يہ قربانى ذبح كرے اور عقيقہ اس ميں داخل ہو جائيگا.

اور بعض كى كلام سے يہ اخذ كيا جا سكتا ہے كہ: دونوں كا ايك ہى شخص كى جانب سے ہونا ضرورى ہے، يعنى عقيقہ اور قربانى چھوٹے بچے كى جانب سے ہى ہو.

اور كچھ دوسروں كى كلام ميں يہ شرط نہيں، جب والد قربانى كرنا چاہے تو والد سے قربانى اور بچے كا عقيقہ ہو جائيگا

حاصل يہ ہوا كہ: جب وہ قربانى قربانى كى نيت سے ذبح كرے اور اس سے عقيقہ كى نيت كر لے تو يہ كافى ہو جائيگى . انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ محمد بن ابراہيم : 6 / 159

واللہ اعلم

•٠•●●•٠•